میری آنکھوں سے بارش کی طرح بہتے آنسو قطرہ قطرہ تکئیے میں پیوست ہو رہے تھے ۔رات کا جانے یہ کون سا پہر تھا ،جب میری آنکھ کُھلی، یہ جنوری 2018 کی ایک سرد رات تھی، رویوں کی سرد مہری نے مجھے یہاں پہنچا دیا ایک بار پھر
گہری خاموشی چلتی مشینوں کا شور اور نس میں گُھپی سوئیوں کی اذیت۔۔۔
لیکن اس بار آنکھوں کے بھیگنے کی وجہ میرا دردِ ماضی نہیں تھا۔ بلکہ یہ انوکھے حادثے سے کم نا تھا کہ ہوش کی دنیا میں آتے جو پہلا خیال آیا مجھے وہ تم تھے۔مجھے اپنے موبائل کی طلب تھی ،جو تم سے ہوگیا تھا عشق مجھے، اسے تمھارے دید کی طلب تھی ،مجھے تم یاد آرہے تھے ،پر یہ کیسی یاد تھی جس میں یاد کرنے کیلئے بھی کچھ نا تھا، سواۓ تلخیوں کے اور چند بیتے ادھورے پَلوں کے۔ بامشکل میں نے اپنے ہاتھوں کو اپنے آنکھوں تک لا کر آنسوں سے چھائی دُھند لاھٹ کو صاف کیا ۔ICU میں اس قدر دھیمی روشنی تھی کے آنکھوں کے سامنے پھیلے اندھیرے کو کم کرنے کیلئے نا کافی تھی، کم از کم میری زندگی کے اندھیرے کو کم کرنے کیلئے تو بلکل کافی نہیں تھی۔
کاش کوئی صبح ایسی ہو جو اپنے ساتھ ایسی روشنی کی کِرن لاۓ کہ تمھارا چہرہ سامنے پاؤں، کاش تم دیکھ پاؤ کہ تمھیں دیکھنے کی خواہش میں میں کیسے مَری جا رہی ہوں۔
جانتے ہو میری حسرتِ دل کیا ہے اب۔۔؟
میری نظریں تمہارا بس ایک بار دیدار کر آۓ
دلِ بے چین کو قرار آجاۓ
موجۂ صبا تمہیں چھو کر مجھ میں سما جائے
میرے دل کی آخری حسرت
تمہارا چہرہ میری نظروں کے سامنے ہو اور موت آ جائے
میں تمھاری ملاقات کی خوشی میں مگن رہوں
اور ملائکہ موت مجھے میری منزل دے جاۓ
۔۔۔
میرا جو یہ عشق ہے نا تم سے یہ بڑا نرالہ ہے، بِن دیکھے، بِن ملے ہی دیوانی بن بیٹھی ۔ زندگی تو پہلے ہی جُھلس چکی تھی، پھر سے دامنِ دل جلا بیٹھی۔
کبھی تم چاہتے تھے میں تم سے ملنے آؤں پر میں آ نا سکی تب کچھ مجبوریوں کی بیڑیاں تھی میرے پاؤں میں ۔۔۔۔ پر جب عشق نے ہر زنجیر توڑ کر تم سے ملنے کا فیصلہ کیا تو تم خود ہی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے۔۔۔ میں نے جب کہا مجھے تم سے ملنا ہے۔تو سوال تھا: "کیوں ملنا ہے بی بی آپکو مجھ سے" تمہارے اس ایک سوال میں جہان بھر کی اجنبیت و بیگانگیت تھی۔۔۔۔
تم سے زیادہ تو میرا اب کوئی اپنا نہیں اور میں تمہارے لیے یکسر اجنبی۔۔۔ کیسے بتاؤں تمھارے لہجے کی یہ اجنبیت میری روح تک کو زخمی کر دیتی ہے ۔ تم کیوں نہیں سمجھتے کہ مجھے تم سے بہت سے بھی بہت زیادہ محبت ہے۔۔۔
تمہاری موجودگی کو محسوس کرنے کیلئے میں نے اپنا موبائل فون تلاش کیا پر ملا نہیں۔
تب ہی نرس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی کمرے میں موجود خاموشی کو تقریباً چیختے ہوئے توڑا۔ اور ساتھ ہی میرا تصور بھی توڑ ڈالا۔۔۔
یہ کیا کر رہی ہیں آپ ؟
کچھ چاہیۓ کیا آپکو؟
جی وہ میں اپنا فون ڈھونڈ رہی تھی ، میری بات سن کر وہ مسکرائی ،آپ کا فون آپکے اٹینڈینٹ کے پاس ہوگا یہاں فون allowed نہیں ۔ شکر ہے آپکو ہوش آیا ،طبیعت کیسی ہے اب آپکی؟ لائٹ آن کر کے وہ جیسے ہی قریب آئی چیخ ہی پڑی ارے یہ کیا کِیا آپ نے اُسکا اشارہ ڈرپ کی طرف تھا جو خون سے بھر رہا تھا۔۔۔ آپ ہمیشہ کچھ ایسا کر دیتی ہیں اُسے ٹھیک کرتے ہوئے وہ مجھے ڈانٹ رہی تھی۔
تو کیا کروں آپ لوگوں نے میرا ایک ہاتھ باندھ رکھا ہے اسلیۓ مجھے اس ہاتھ کو ہی استعمال کرنا پڑا ۔تو ہم بھی کیا کریں آپکے ہاتھ کو نا باندھو تو آپ یہ سب نوچ کر پھینکنے لگتی ہیں ،،، میں نے انجان بنے معصومیت سے پوچھا اچھا میں ایسا کرتی ہوں۔۔۔ وہ میرے الفاظ سے زیادہ میرے پوچھنے کے انداز پر مسکرانے لگی۔۔۔ نا ہی پوچھیں کیسا طوفان برپا کرتی ہیں آپ۔۔۔
اس نے میرے بیڈ سے بندھے دوسرے ہاتھ کو آزاد کر دیا۔ بلیڈ پریشر ، ہارٹ بیٹ چیک کر کے تسلی کی اور بے ساختہ کہا شکر ہے اب آپ کافی بہتر ہیں ۔ میں آپکی اٹینڈینٹ کو بھیجتی ہوں آپکے پاس ۔
میں بھی درد سے ہار کے یہاں آجاتی ہوں جیسے ایک بیٹی تکلیف میں ماں کی آغوش تلاش کرتی ہے میں بھی اس جگہ کو اب اپنا مائیکا سمجھ کر درد کی شدت کم کرنے یہاں آ جاتی ہوں۔۔۔ یہاں کے کچھ لوگ بھی اب ایسے خیال کرتے ہیں میرا جیسے میرے مائیکے والے ہی ہوں ۔۔۔ یہ نرس نادیہ تھیں جو میری صحتیابی پر شکر ادا کر رہی تھیں۔۔۔
مجھے تو یہ خبر بھی نہیں کے میرے ساتھ کون ہے یہاں میں ایسی بے خبر تھی اور معلوم نہیں کتنی دیر کے بعد ہوش میں آئی تھی۔۔۔
آپی کو داخل ہوتے دیکھ کر میری خوشی کا ٹِھکانا نا تھا تقریباً دو برس کے بعد میں آج اُسے دیکھ رہی تھی ۔
میری مہربان بہن ۔مجھ سے بے حد محبت کرنے والی اس لمحے میرے سامنے تھی ۔ وہ عمر کے کم فرق کے باوجود میرے لیے ممتا کا چھاؤں تھی بچپن سے ۔۔۔ میں نے تو ہمیشہ اسکی آغوش میں ممتا کا سکون ڈھونڈا تھا ،،، کسر تو اس نے بھی کبھی کوئی نہیں چھوڑی تھی۔۔۔
پر بے رحم وقت نے ہمارے درمیان ایسی کھائی کھود ڈالی کہ کچھ بھی پہلے جیسا کہاں تھا اب ۔۔۔ ہم جو ایک دوسرے کے بِنا رہتے نہیں تھے ،،، آج میں اُسی جانِ عزیز بہن سے دو سال کے بعد مل رہی تھی کتنی مِنتیں کی تھیں اسکی کہ تم آجاؤ نا آپی مجھے تمھاری ضرورت ہے کتنے دنوں کے منتوں کے بعد (وہ جو سعودیہ عرب کے شہر القسیم میں اپنے شوہر اور ہماری امی کے ساتھ قیام پزیر تھی) بلا آخر وہ آہی گئ۔۔۔
یہ اور بات کہ اسکے انتظار میں میں یہاں تک آگئ۔
پر اسے دیکھ کر مجھے خود سے شرمندگی ہوئی اسکی آنکھیں رونے کی وجہ سے سوجی ہوئی تھیں۔ میرے دل نے مجھے ملامت کیا افشاں تم سب کیلئے ہی باعث تکلیف ہو۔
تمہیں اسکا استقبال کرنا تھا نا کہ وہ تمہاری تیمارداری کر رہی ہے ، ایک اپنے دل کو سنبھال لو تو کتنا کچھ بہتر ہوجاۓ پر کم بخت یہ دل سمجھتا ہی نہیں ۔۔۔
اللّٰہ کا شکر ہے تم ہوش میں آگئیں ، اب درد تو نہیں ہو رہا (میرے سینے پر ہاتھ ایسے پھیرنے لگی جیسے میرے دل کو سَھلا رہی ہو) وہ مسکرا رہی تھی پر آنسو ٹَپ ٹَپ اسکی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔
میں مسکرائی ، درد۔۔۔؟ یہ درد کیا ہوتا ہے ؟
تمہیں نہیں پتہ درد کیا ہوتا ہے۔۔۔؟ ہم سے پوچھو یہ تمھیں تکلیف میں دیکھ کر ہمیں بہت ہوتا ہے ۔۔۔
سوری آپی... میں بس اتنا ہی کہہ پائی (اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے)
تم سوری مت کہو ، سوری مجھے کہنا ہے تم کب سے بولا رہی تھی میں نے آنے میں دیر کردیا ۔۔۔ پر شکر ہے اللّٰہ کا ورنہ ایک پل کو تو میں ڈر گئ تھی کہ ۔۔۔۔
کہ کیا آپی..؟ کہیں بہت دیر تو نہیں ہو گئ،،، ( میں نے اسکے ادھورے جملے کو مکمل کیا اور کھوکھلی ہنسی ہنس پڑی فکر نا کرو بڑی ڈھیٹ ہوں میں )
اللّٰہ نا کرے کیوں فالتو بولتی ہو چپ ہوجاؤ۔۔۔
جو ہم سوچنا بھی نہیں چاہتے تم کتنی آسانی سے بول لیتی ہو یہ سوچے بِنا کہ سُن کر ہمیں تکلیف ہوتی ہے۔۔۔
پھر یکدم اُسے خیال آیا ہو
یہ تم موبائل کیوں ڈھونڈ رہی تھی نرس نے بتایا ۔۔۔ یہاں ہم تین دن سے تمہارے ہوش میں آنے کا انتظار کررہے تھے اور تم ہو کے ہوش میں آتے ہی ہمارے بجائے موبائل ڈھونڈ نے لگیں۔۔۔
ارے تو میں موبائل اسلئے ہی تو ڈھونڈ رہی تھی کے تمہیں فون کرتی مجھے کیا معلوم تھا کہ تم آچکی ہو ۔۔۔۔
اچھا۔۔۔ ؟
(اسکے اس اچھا میں اسکی بے یقینی تھی کہ جیسے وہ سمجھ گئی ہو کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں )
اپنے پرس سے میرا موبائل مجھے نکال کر دیتے ہوئے اس کے سوال نے میرے اوسان خطا کر دئیے۔
یہ Shaji کون ہے افشاں؟
میرے تو جیسے لبّ ہی سِل گۓ کہ کیا جواب دوں ، پر آپی کو کیسے یہ نام معلوم ہوا۔۔
میں کچھ پوچھ رہی ہوں، اس نے دوبار سوال کیا
میں سمجھی نہیں تم کیا پوچھ رہی ہو اور بامشکل میرے منہ سے الفاظ ادا ہوۓ کون Shaji Haider؟
تمہیں واقعی نہیں پتہ
نہیں ! ( میں اب کی اتنا مختصر ہی جواب دے پائی تھی )
آں ہاں ۔۔۔۔ "Shaji Haider" ۔۔۔!
جبکہ میں نے صرف Shaji کہا تھا۔۔۔
کیا یہ مکمل نام ہے ؟
اس پل میرا دل چاہا اپنا ہی سَر پیٹ لوں سدا کی احمق افشاں ۔۔۔
کوئی جواب نا دینا ہی بہتر،کہ مزید جھوٹ مزید پردہ فاش نا کردے۔۔۔
مجھے خاموش دیکھ کر وہ شروع ہوگئی
کل دوپہر جب تم درد سے تڑپ رہی تھی تو غنودگی میں میرا ہاتھ تھام کر مجھ سے بامشکل یہ کہہ پائی تھی "آپی Shaji Haider کو بُولا دو اس سے پہلے کے میرا دم نِکل جائے، مجھے اُن سے ملنا ہے ۔"
میں نے تمہارے موبائل میں چیک کیا پر کوئی نمبر اس نام سے نہیں مِلا، ورنہ میں فون کر کہ بولا لیتی ۔۔۔
کامران سے بھی پوچھا تھا وہ صاحب تو کندھے اُچکا کر اپنی لاعلمی ظاہر کر کے چلتے بنے۔۔۔
اب تم ہی بتا دو کچھ ۔۔۔ (عادت سے مجبور میری پیاری آپی ، جب تک جان نا لے سکون نا ملے اُسے، اسکے پیٹ کا درد اب میرے سر کا درد بن رہا تھا اب)
تم ہی تو کہہ رہی ہو میں ہوش میں نہیں تھی ۔۔۔ شدتِ درد سے بے ہوشی میں فالتو بول رہی ہونگی ،،، مجھے تو یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے ایسا کچھ تم سے کہا بھی ہے (یہ میں سچ بول رہی ہوں ،مجھے واقعی نہیں یاد کہ بے ہوشی میں میں کیا کچھ بَک چکی ہوں )
اسکی آنکھوں کی بے یقینی دیکھ کر میں نے مزید کہا یہ نام Shaji Haider بھی میں آج تم سے پہلی بار سُن رہی ہوں۔۔۔
تب ہی ڈاکٹر کا راؤنڈ پر آنا جیسے اللّٰہ کریم کی طرف سے کوئی غیبی مدد ہو اُس پل ۔۔۔
آپی کے ان سوالوں سے میں اس وقت جان تو بچ گئ تھی ، پر کب تک ؟ یہ سوال دوبارہ ہوگا ، آپی نے تو کامران تک کو بتا دیا ہے۔۔۔
کیا جواب دونگی۔۔۔ اچھا ہوتا ہوش میں ہی نا آتی، ہوش میں آتے ہی آپی نے تو سر پر بَم پھاڑ دیا ہے میری حماقت کا ،اور اوپر سے چپ بھی نہیں رہا گیا اُس سے ۔۔۔
کیا بتاؤں گی یہ رگِ جاں ۔ یہ راحتِ جاں۔ میری جاں میرا جہاں۔ جو اب روگِ جاں بن گیا ہے ۔کون ہے یہ "Shaji Haider"...
Continued....